دعا تک دین کو بدلتی ہے Fundamentals Explained

وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ

بعض محدثین کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قضا وتقدیر بدلتی تو نہیں ہے ، لیکن اگر بالفرض بدلتی تو دعا سے بدل جاتی، یعنی تقدیر کی پختگی کو بتانا مقصود ہے، نیز دعاکی اہمیت کو ذہن نشین کرانا ہے۔

 ان دونوں نے کہا: “ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف  اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے”۔

کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا،  تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ !

داخل ہوں اکاؤنٹ بنائیں کیا آپ اپنے اکاؤنٹ میں داخل نہیں ہوسکے؟ آپ اپنا پاسورڈ بھول گئے ہیں؟ اگر آپ کا اکاؤنٹ نہیں ہے تو آپ اکاؤنٹ بنانے کے لیے نیچے گئے بٹن پر کلک کریں۔ اگر آپ کے پاس اکاؤنٹ ہے تو لاگ ان کریں۔ نیا اکاؤنٹ بنائیں لاگ ان یا

چترال، سوات اور مالاکنڈ میں ایف سی نارتھ کے زیر اہتمام یوم دفاع کی تقریب

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہاتھوں میں فاصلہ ڈالنا یا الگ الگ رکھنے  سے متعلق کوئی  دلیل احادیث یا علمائے کرام کی گفتگو سے میرے علم میں نہیں ہے " انتہی

اس لیے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود  و سلام پڑھو۔

تو کیا انسان کے لئے یہ مناسب ہو گا کہ جب کوئی گمراہی والا عمل کر لے تو جبری [تقدیر کو جبری قرار دینے والا]بن جائے، اور جب کوئی نیکی کرنے لگے تو قدری [تقدیر کا سرے سے انکار کرنے والا]بن جائے!

حزب اللہ بڑی جنگ کی تیاری میں، ٹارگٹ لاک ہوگیا، حسن نصر اللہ کا کھلا پیغام

 اسی کو پکارنا بر حق  ہے اور جو لوگ اس کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہیں وہ انھیں کچھ بھی جواب نہیں دے سکتے۔ انھیں پکارنا تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص پانی کی طرف اپنے ہاتھ اس لئے پھیلائے کہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ پانی کبھی اس کے منہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ کافروں کی دعائیں صرف گمراہی میں ہیں ۔

فَقَالَ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ إِلَى قَضَاءِ اللَّهِ، أَوْ أَرَادَ بِرَدِّ الْقَضَاءِ إِنْ كَانَ الْمُرَادُ حَقِيقَتَهُ تَهْوِينَهُ وَتَيْسِيرَ الْأَمْرِ، حَتَّى كَأَنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ. يُؤَيِّدُهُ قَوْلُهُ فِي الْحَدِيثِ الْآتِي: «الدُّعَاءُ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ» ، وَقِيلَ: الدُّعَاءُ كَالتُّرْسِ، وَالْبَلَاءُ كَالسَّهْمِ، وَالْقَضَاءُ أَمْرٌ مُبْهَمٌ مُقَدَّرٌ فِي الْأَزَلِ۔۔۔۔۔۔وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْقَضَاءَ الْمُعَلَّقَ يَتَغَيَّرُ، وَأَمَّا الْقَضَاءُ الْمُبْرَمُ فَلَا يُبَدَّلُ وَلَا يُغَيَّرُ.

  وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے here ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے جیسے  ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل ﷲ عَلٰی نَبِیِّنَا الْکَرِیْم وَعَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃ وَالتَّسْلِیْم کہ رحمتِ محضہ تھے،  اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *